خواہش من آنگن کا گلاب ہے- یہ رتجگوں کی مانند آنکھوں میں
اترتا عذاب بھی ہے-اس کی کسک تڑپاتی ہے –ستاتی ہے اور پھر لہو گرما کر شاہین کے
لپکنے جھپکنے کا بہانہ بن جاتی ہے- خواہش کے وجود کو اگر ہم اپنے جذبوں سے الگ کر
دیں تو ذندگی کو متحرک اور رواں دواں رکھنے کا کیا جواز رہ جائے گا؟
گزرتے لمحوں میں
خواہش ہمارے سنگ سنگ رہتی ہے- زندگی کی ہما ہمی کی طرح اس کے بھی کئ روپ ہیں- گویا ہما رے اردگرد کی نیرنگی میں
خواہش گونا گوں اضافہ کرتی رہتی ہے- کبھی محبت بن کر ایک سریلے نغمے میں ڈھل جاتی
ہے- پھر یہ نغمہ جو بھی سنتا ہے اس کے دل میں کومل جذبے چٹکیاں لینے لگتے ہیں-
موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی کوئل کی میٹھی بولیوں میں ہماری خواہشات کی تانیں
بھی رچ بس جاتی ہیں- قدرت کا فنکار ہاتھ نظاروں میں رنگ بھرنے لگتا ہے- ارد گرد
پھیلا یہ حسنِ دلنواز ہمارے اندر کے موسم کو نیا عنوان دے ڈالتا ہے- وقت کے گزرنے
کے ساتھ ساتھ موسمِ خزاں کی پت جھڑ بھی شروع ہو چکی ہے- جہاں کہیں بھولوں کی مہکار
تھی وہاں سرسراتے پتوں کے بیچ نفرت اور حسد کی دبی دبی چنگاریاں اٹھ رہی ہیں – رئیس فروغ نے ایسے ہی کسی کربناک
ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے-
سخت
برہم تھیں ہوائیں پھر بھی
ریت پر پھول بنائے میں نے
میرے آنگن کی اداسی نہ گئی
روز مہمان بلائے میں نے
دھوپ نے اور جلایا توفروغ
اور کچھ پیڑ لگائے میں نے
بعض اوقات اپنے
ماحول کی بے چینی اور افسردگی کو محسوس کرتے ہوئے میرا دل چاہنے لگتا ہے کہ کاش
خواہشات رنگ برنگے ننھے منے پرندے ہوا کرتیں- ہمارے گھروں کی منڈیروں پر بیٹھے ہو
ئے یہ خوش رنگ پرندے میٹھی مدھر بولیاں بول کر ہمارا دل بہلایا کرتے- یا پھر رات
کےاندھیروں میں دیپ پن کر ہمارے حوصلوں کو ِجلا دیا کرتے – اور ہونا بھی یوں
چا ہیئے کہ
خواہش چراغِ راہ بنے- جہاں کہیں یہ بھڑکتا
ہوا الاؤ بنی وہیں روح جل کر خاکستر ہوئ- اسی لیے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ اپنی
خواہشات کو بے لگام نہ چھوڑو-
خواہش جب نفس پر حاوی ہو جاتی ہے تو انسان گناہ کی دلدل میں
پھنس جاتا ہے- ذہن خواہش کی بدولت مفلوج ہو جائے تو کم عقلی اور بد حواسی کے
مظاہرے دیکھنے کو ملتے ہیں- یہی خواہش جب قلب کو اپنی طاقت سے زیر کرتی ہے تو بے
چینی اور مایوسی کے سا ئے انسان کا پیچھا
کرتے ہیں –اگر میانہ روی سے کام لیا جائے تو زندگی سکون سے گزر سکتی ہے-
خواہش کے متعلق ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بھی ہے کہ بعض
اوقات نا آسودہ خواہشات انسان کو اندس سے ڈس لیتی ہیں- وہ جو ایک توازن اور ہمہ جہتی کسی بھی شخصیت کی لیے
ضروری ہوتا ہے وہ قائم رکھنا مشکل ہو جا تا ہے- یہی نا آسودہ خواہشات جب ہمیں بہت
بے چین کرتی ہیں تو ہم آ نکھوں میں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیاں چھپائے نجومیوں اور
عاملوں کے پاس جاتے ہیں- وہ ہمیں سبز باغ دکھا کر جمع پونجی سے بھی محروم کردیتے
ہیں-انہی ناآسودہ تمناؤں کے پیچھے بھا گ بھاگ کر ہم اپنی راہ کھو دیتے ہیں- اور وہ
جو بے ضرر سی چھو ٹی چھوٹی خوشیاں ہماری
راہ میں پھولوں کی پنکھڑیوں کی مانند بکھری رہتی ہیں، انہیں ہم اپنے قدموں تلے
روند کر ایک سراب کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں-
خواہش جب منزل سے ہمکنار ہوتی ہے تو ہماری خوشیوں کا جام تو
لبالب بھر جاتا ہے لیکن نفس کی بھوک کسی
نئ نویلی آرزو کی چا ہت کو ابھار دیتی ہے- گویا اطمینانِ قلب کے لیے ضروری ہے
زندگی کے خوشگوار پل چن چن کر اپنے دامن
میں بھر لیے جائیں- جب کبھی کوئ ناقابلِ حصول خواہش مچل مچل کر ہمیں اپنی جانب
بلائے تو یہ خوشی بھرے لمحے شبنمی قطرے پن کر ہطارے نفس کی آگ کوبجھا دیں-
No comments:
Post a Comment