بدعا - My Writings: expressions over time

A collection of stories , travelogues , and essays in Urdu and English languages

Read The Best of Best !!

Sunday, July 10, 2016

بدعا


میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو دفترسے واپسی پر ایک چھوٹے سے خستہ حال مکان کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاتی ہوں- اس گھر میں ایک نوجوان بیوہ رقیّہ اپنے سات چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہے- مجھے دیکھتے ہی رقیّہ کے آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھتے ہیں- ایک لفافے میں بند کچھ رقم جب میں اسے پکڑاتی ہوں تو نہ جانے کتنی انمول دعائیں وہ میرے دامن میں ڈال دیتی ہے- پرنم آنکھیں لیے آگے  بڑھ کر وہ میرے ہاتھوں کو چومنا چاہتی ہے-  مگر میں جلدی سے پہلو بچا کر واپس لوٹ آتی ہوں-- رقیّہ نہیں جا نتی کہ جتنا  وہ مجھ  پر واری صدقے جاتی ہے، اتنا ہی میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوتی ہوں- وہ جان بھی نہیں سکتی کیوں کہ وہ اس کہانی کےدوسرے پہلو سے بے خبر ہے-
میں بھی شاید رقیّہ کے بارے میں کچھ نہ جان پاتی اگر  ایک  حادثہ  نہ ہوجاتا- گو کہ اس حا دثے نے میرے ذہنی سکون میں دراڑیں ڈال دی ہیں مگر معمولاتِ زندگی  تو ویسے  ہی ہیں جیسے کہ پہلے تھے- میں  اب بھی روز کی طرح  صبح اٹھ کر تیار ہوتی ہوں- دفتر جانے کے لیے اپنے گھر والی گلی پار کر کے مین سڑک سے کوئ رکشا یا ٹیکسی لیتی ہوں-
کچھ عرصہ پہلے ہماری گلی کے نکڑ پر بڑی رونق ہوا کرتی تھی-  صبح ہی سے دو چار بے فکرے لڑکے  شیدے حلوائ کی دکان پر کھڑے نظر آتے -کوئ سال ڈیڑھ سال پہلے شیدے نے یہاں گلی کے کونے پر دکان کھولی تھی- نہ جانے شیدے میں کیا بری عادت تھی کہ وہ ہر آتی جاتی لڑکی پر فقرہ ضرور کستا تھا- میں بھی جب صبح او دوپہر اس کی دکان کے پاس سے گزرتی تو وہ کوئ گھٹیا سا فلمی گیت اونچی آواز میں گنگنانے لگتا- دکان پر کھڑے لڑکے اس کی اس حرکت پر مسکرانے لگتے –غصّے سے میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی- جی چا ہتا جوتے مار مار کرشیدے اور باقی لوفروں کے منہ توڑ دوں – پر میں ہمیشہ ہی خون کے سے گھونٹ پیتی ہوئ  چپ چاپ گزر جاتی-
ایک دن مجھے دفتر واپسی پر دیر ہو گئ – بڑی مشکل سے رکشا ملا – گرمی اور تھکاوٹ سے میرا برا حال تھا-شیدے کی دکان کے پاس سے گزری  تو اس نے گانے کے علاوہ ایک بے ہودہ سا فقرہ بھی میری جانب اچھال دیا- قہقہوں کی آوازوں نے دور تک میرا پیچھا کیا- اسی لمحے میرے دل سے بدعا نکلی-
" شیدے منحوس ! اللہ کرے آج کے بعد سے تیری یہ دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے-"
دوسرے دن صبح  جب میں دفتر کے لیے نکلی تو گلی کا نکڑ سونا سونا سا محسوس ہوا-قریب جا کر دیکھاتو شیدے کی دکان بند نظر آئ- میں نے کوئ خاص توجہ نہ دی- دفتر سے واپسی پر بھی دکان کو بند پا کر میرے دل میں کھٹکھکا سا ہوا- گھر میں داخل ہوئ تو اماں کی آواز کان میں پڑی- وہ کسی پڑوسن سے  کہہ رہی تھیں-
" بے چارہ شیدا ! سات بچوں کا باپ تھا – کل شام ایسا  دل کا دورہ پڑا کہ غریب نے دوسرا سانس نہ لیا-"
یہ فقرہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں سے جان ہی نکل گئ- کوئ بدعا اتنی جلدی بھی قبول ہو سکتی اور اس طرح سے، یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا- اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو رقّیہ یعنی شیدے کی بیوی کے گھر کا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتی ہوں!




No comments: