میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو دفترسے واپسی پر
ایک چھوٹے سے خستہ حال مکان کا دروازہ ضرور کھٹکھٹاتی ہوں- اس گھر میں ایک نوجوان
بیوہ رقیّہ اپنے سات چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہے- مجھے دیکھتے ہی رقیّہ کے
آنکھوں میں امید کے دیپ جل اٹھتے ہیں- ایک لفافے میں بند کچھ رقم جب میں اسے
پکڑاتی ہوں تو نہ جانے کتنی انمول دعائیں وہ میرے دامن میں ڈال دیتی ہے- پرنم
آنکھیں لیے آگے بڑھ کر وہ میرے ہاتھوں کو چومنا چاہتی ہے- مگر میں جلدی سے پہلو بچا کر واپس لوٹ آتی ہوں--
رقیّہ نہیں جا نتی کہ جتنا وہ مجھ پر واری صدقے جاتی ہے، اتنا ہی میں دل ہی دل میں
شرمندہ ہوتی ہوں- وہ جان بھی نہیں سکتی کیوں کہ وہ اس کہانی کےدوسرے پہلو سے
بے خبر ہے-
میں بھی شاید رقیّہ کے بارے میں کچھ نہ جان پاتی
اگر ایک
حادثہ نہ ہوجاتا- گو کہ اس حا دثے
نے میرے ذہنی سکون میں دراڑیں ڈال دی ہیں مگر معمولاتِ زندگی تو ویسے
ہی ہیں جیسے کہ پہلے تھے- میں اب
بھی روز کی طرح صبح اٹھ کر تیار ہوتی ہوں-
دفتر جانے کے لیے اپنے گھر والی گلی پار کر کے مین سڑک سے کوئ رکشا یا ٹیکسی لیتی
ہوں-
کچھ عرصہ پہلے ہماری گلی کے نکڑ پر بڑی رونق ہوا
کرتی تھی- صبح ہی سے دو چار بے فکرے لڑکے شیدے حلوائ کی دکان پر کھڑے نظر آتے -کوئ سال
ڈیڑھ سال پہلے شیدے نے یہاں گلی کے کونے پر دکان کھولی تھی- نہ جانے شیدے میں کیا
بری عادت تھی کہ وہ ہر آتی جاتی لڑکی پر فقرہ ضرور کستا تھا- میں بھی جب صبح او
دوپہر اس کی دکان کے پاس سے گزرتی تو وہ کوئ گھٹیا سا فلمی گیت اونچی آواز میں
گنگنانے لگتا- دکان پر کھڑے لڑکے اس کی اس حرکت پر مسکرانے لگتے –غصّے سے میرے تن
بدن میں آگ لگ جاتی- جی چا ہتا جوتے مار مار کرشیدے اور باقی لوفروں کے منہ توڑ
دوں – پر میں ہمیشہ ہی خون کے سے گھونٹ پیتی ہوئ
چپ چاپ گزر جاتی-
ایک دن مجھے دفتر واپسی پر دیر ہو گئ – بڑی مشکل
سے رکشا ملا – گرمی اور تھکاوٹ سے میرا برا حال تھا-شیدے کی دکان کے پاس سے گزری تو اس نے گانے کے علاوہ ایک بے ہودہ سا فقرہ بھی
میری جانب اچھال دیا- قہقہوں کی آوازوں نے دور تک میرا پیچھا کیا- اسی لمحے میرے
دل سے بدعا نکلی-
" شیدے منحوس ! اللہ کرے آج کے بعد سے تیری
یہ دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے-"
دوسرے دن صبح
جب میں دفتر کے لیے نکلی تو گلی کا نکڑ سونا سونا سا محسوس ہوا-قریب جا کر دیکھاتو
شیدے کی دکان بند نظر آئ- میں نے کوئ خاص توجہ نہ دی- دفتر سے واپسی پر بھی دکان
کو بند پا کر میرے دل میں کھٹکھکا سا ہوا- گھر میں داخل ہوئ تو اماں کی آواز کان
میں پڑی- وہ کسی پڑوسن سے کہہ رہی تھیں-
" بے چارہ شیدا ! سات بچوں کا باپ تھا – کل
شام ایسا دل کا دورہ پڑا کہ غریب نے دوسرا
سانس نہ لیا-"
یہ فقرہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں سے جان ہی نکل
گئ- کوئ بدعا اتنی جلدی بھی قبول ہو سکتی اور اس طرح سے، یہ میرے وہم و گمان میں
بھی نہ تھا- اب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میں ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو رقّیہ
یعنی شیدے کی بیوی کے گھر کا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتی ہوں!
No comments:
Post a Comment