اس ذندگی کے میلے میں کس قدر جھمیلے ہیں!
میں تو تھک گئی ہوں اپنے انا کے بت سنھبالتے ہوئے- نازک اتنے ہیں کے ذرا سی خراش برداشت نہیں کر سکتے- پھر دن لگ جاتے ہیں ان خراشوں کو مٹاتے ہوئے-
دوسری جانب روز مرّہ کی ذمہ داریوں کا ایک سلسلہ ہے جو کہ سمٹنے میں نہیں آتاـ سمٹے بھی کیسے ؟ بڑا گھر ہے اس کے ساتھ مہنگی گاڑی بھی ہے-گھر کا ایک ایک فرد کوہلو کے بیل کی طرح کام کاج میں جتا رہتا ہے تبھی تو اتنا شاندار طرزِ ذندگی اپنایا ہوا ہے-
اف کتنے کام ہیں جو کہ نمٹانے ہیں- پھر بھی ایک خلش ہے جو کہ تڑپا رہی ہے - اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے- دل چاہتا ہے ذرا رک جاؤں - پوچھوں اپنے آپ سے - کس کے لیے ہے یہ سب بھا گ دوڑ ؟ کیا واقعی میں یہی چاہتی ہوں یا کہ کچھ اور بھی ہے جسں کی تمنا یہ دل کرتا ہے - نجانے دنیا کی یہ تمام آسائشیں مل کر بھی قلب کو اطمینان نہیں دلا سکتیں- لا حاصل جستجو میں سکون کیسے حاصل کریں؟
No comments:
Post a Comment