خوشبو کا سفر قسط نمبر ۱ - My Writings: expressions over time

A collection of stories , travelogues , and essays in Urdu and English languages

Read The Best of Best !!

Thursday, August 18, 2022

خوشبو کا سفر قسط نمبر ۱

خوشبو کا سفر:قسط نمبر۱   


جیسے جیسے گاڑی اپنے راستے پر آگے بڑھتی جاتی تھی ، فضا میں پھیلی خوشبو اعصاب کو مسحور کیے جارہی تھی ۔ سڑک کے دونوں جانب سیبوں کے باغات تھے ۔  

 یہ مہک انہیں سیبوں سے اٹھ رہی تھی ۔



اس وقت ہم اوڑک کی جانب سفر کر رہے تھے جو کہ کوئٹہ کے نواح میں ایک سر سبزو شاداب جگہ ہے ۔یہ سفر جس کی میں روئیداد آپ کو سنانے جا رہی ہوں ، گرمیوں کی چھٹیوں کا ایک تفریحی دورہ تھا ۔ سفر سے واپسی پر رشتے داروں اور دوستوں سے بلوچستان کی ثقافت اور رسم و رواج پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں سفری احوال کے علاوہ کچھ اور بھی کہنا چاہ رہی ہوں ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اپنے احساسات کو قلم کی زبان ملے ۔  

گاڑی تو آگے بڑھ ہی رہی تھی مگر مجھے لگا کہ اس سفر نے میری ذات کے بند دریچے کھول دیے ہیں ۔

جب ہم راولپنڈی سے کوئٹہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو موسلادھار بارش شروع ہو چکی تھی ۔ ائرپورٹ پر ہڑبونگ کا سماں تھا ۔ ( جاری ہے )

راولپنڈی سے کوئٹہ  کی پرواز کا دورانیہ صرف ایک گھنٹے کا ہے لیکن موسم کی خرابی کے باعث پرواز میں تاخیر تھی ۔ قطاروں میں کھڑے لوگ سامان لوڈ کروانے اور بورڈنگ کارڈ کے اجراء کے لیے  پریشان کھڑے تھے ۔ من حیث القوم ہمارے ہاں نظم و ضبط کی بے حد کمی ہے ۔ لگتا ہے کہ پوری قوم کو  ایک سخت  تربیتی کورس کی ضرورت ہے جس میں یہ سکھایا جائے کہ عوامی مقامات پر ایک ذمہ دار شہری کے  بطور ہمیں کن ادب و آداب کا خیال کرنا چاہیے - شاعر نےہمارے بارے ہی کہا ہے کہ :  

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

دنیا کی رہنمائ تو ہم نے کیا کرنی ہے ! یہاں تو اپنے ہی حالات سنوارنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ 

 ائرپورٹ پر لوگوں کے جم غفیر سے بچتے بچاتے آخر کار ہم جہاز پر سوار ہو ہی گئے ۔ دورانِ پرواز ہمارے دو عدد نونہلان نے خوب مصروف رکھا ۔ یہ ان کا جہاز کا پہلا سفر تھا ۔ حیرت اور اشتیاق سے سرشار وہ جہاز کی کھڑکی کے باہر اُڑتے بادلوں کو دیکھ رہے تھے ۔ شدید دھند کے وجہ سے جہاز کبھی کبھار  ہچکولے کھانے لگتا تو خوشی سے ان کی چیخیں نکل جاتیں ۔وہ  جہاز کے جھولوں سے خوب لطف اندازو ہو رہے تھےہو ۔ بچپن بھی کتنا معصوم ہوتا ہے ۔ خطروں سے بے نیاز اور ریا سے پاک ! بچپن کا ہر خوشگوار تجربہ ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔

جیسے جیسے آپ کو شعور آتا جاتا ہے دنیا کی مکاریاں عیاں ہوتی جاتی ہیں ۔  اور پھر خوشیاں بھی پھیکی پھیکی لگتی ہیں ۔ 

میں دل ہی دل میں حفاظت کے لیے مسنون دعاوں کا ورد کر ہی تھی ۔   کچھ ہی دیر بعد ساتھ خیریت سے ہمارا جہاز کوئٹہ کے بین الاقومی ہوائی اڈے پر اتر گیا تھا ۔ جہاں ہماری میاں صاحب بے چینی سے ہم لوگوں کے منتظر تھے ۔ ان کی کئ ماہ پہلے خضدار میں تعیناتی ہوئ تھی ۔  کوئٹہ کا ائرپورٹ لاہور اور راولپنڈی کے مقابلے میں چھوٹا  ہے اور سہولیات بھی کم ہیں ۔ شاید اب کچھ بہتری آگئ ہو ۔ میں آج سے بیس سال پہلے کی بات کر رہی ہوں ۔ پاکستان میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے ۔ ان علاقوں میں بلوچستان سرِ فہرست ہے۔ بہرحال اس پر آگے چل کر مزید بات ہو گی ۔

کوئٹہ کے خشک اور گرم موسم نے ہمیں پنڈی کے رم جھم سماں کی یاد دلا دی ۔ چاروں طرف نظر دوڑائ تو اونچے اونچے بنجر پہاڑوں میں اپنے آپ کو گھرا پایا ۔ پھر یاد آیا کہ ہی پہاڑ بنجر نہیں ہیں ۔ ان کے سینوں میں قدرت نے معدنیات کے خزانے بھرے ہیں ۔( جا ری ہے )



 


 

 

 


 


No comments: