کوہٹہ میں کیا دیکھا؟
اندرونِ کوئٹہ کے بازاروں میں گاڑی ٹریفک اور ہجوم میں جگہ بناتی ہوئ جا رہی تھی- ایک افراتفری کا سماں تھا ۔ مردوں کے سروں پر بڑی بڑی پگڑیاں تھیں اور چہرے لمبی داڑھیوں سے سجے تھے ۔ کبھی کبھار کوئ عورت اگر نظر بھی آتی تھی تو وہ ایک بڑی سی چادر یا گول چھتری نما برقعے میں لپٹی ہوتی۔اگر چادر اوڑھی ہوتی تو اس کے چہرے کی ایک آنکھ ہی نظر آتی تھی بعض جگہوں پر رش کی وجہ سے گاڑی رینگنے لگ جاتی ۔ ایسے میں نے کئ مردوں کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے چادر سے اپنے چہرے کو چھپا لیا ۔ سچی بات ہے کہ پہلی دفعہ ایک ڈر سا محسوس ہونے لگا ۔ کوئٹہ کے اندرون ِ شہر کے بازاروں میں خوب چہل پہل تھی ۔ لیکن جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر بھی نظر آرہے تھے ۔
پورے پاکستان کےمقابلے میں بلوچستان میں غربت اور بے روزگاری سب سے زیادہ ہے۔
آخرکار گاڑی کینٹ کے علاقے میں داخل ہوئ ۔ ییہاں پر صفائ اور سکیورٹی کا خاص خیال رکھا گیا تھا ۔ قطار اندر قطار بنگلے بنے ہوۓ تھے - ۔ ہمارا رہائشی بنگلہ بھی اسی علاقے میں تھا ۔ گھر کی بیٹھک فرشی تھی اور کمرے میں چاروں طرف بڑے بڑے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد خانساماں کھانا ٹرے میں رکھ کر لے آیا ۔ جو کہ ہم نے رغبت سے کھایا ۔ تھکے تو ہو ئے تھے اس لیے سب ہی جلد سو گئے ۔ اگلے روز میں گھر کو سیٹ کرنے میں مصروف رہی ۔ بچے کھیل کود میں مصروف ہو گئے اور ہمارے شوہر نامدار دفتر کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں مقامی لوگ باہر کے لوگوں کو پسند نہیں کر تے اس لیے سرکاری افسران کے ساتھ ہر وقت بندوق بردار سیکورٹی گارڈ رہتے ہیں اور کچھ سیکورٹٰی کے لوگ اہل خانہ کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، یہاں کے سردار کبھی بھی اس صوبے کی ترقی نہیں چاہیں گے ۔ان کے اپنےاہل و عیال دنیا کی ہر آسائش سے ملا مال ہیں لیکن عام عوام غربت کی چکی میں پستے ہیں- ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر ناہمواری رش بس گئی ہے ۔ امیروں کے لیے دولت گھر کی باندی ہے اور غریب دو بوند صاف پانی کو ترستے ہیں ۔پورے پاکستان کے مقابلے میں بلوچستان میں غربت اور بے روزگاری سب سے زیادہ ہے۔۔ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں بچے بچیاں اور بالخصوص عورتیں اچھی غذا سے بھی دورہیں بلکہ انکے بروقت علاج ومعالجے کیلئے کوئی خاص تدابیر بھی نہیں میسر ہیں ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کہ ان حالات میں کو ئی بدلاوا نہیں آتا۔
ہوٹل سرینہ کوئٹہ
ر۱ت کو ہمارے میاں صاحب کے ایک دوست نے ہوٹل سرینہ میں رات کے کھانے کا انتظام کیا تھا ۔ بار بی کیو پر بھنے تکے کباب اور بلوچی پلاؤ اور سجی بہت ہی لذیذ تھے ۔ جھلملاتی روشنیوں میں حوض کےکنارے فواروں کا شور بہت بھلا لگ رہا تھا۔جہان ہم بیٹھے تھے وہیں درختوں کا ایک جھنڈ تھا ۔ ںظر اٹھا کر دیکھا تو سارے درخت سیبوں سے لدے ہوئے تھے۔ ان سیبوں کی خوشبو جنت سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ یہی خوشبو ہمارے ساتھی بیشتر جگہوں پر ہمسفر رہی ۔(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment