ہنہ
جھیل
خضدار
میں ہمارا قیام کو ئ ایک ماہ کے لگ بھگ رہا ۔ اس کے بعد میاں صاحب کو دفتری معاملات کی وجہ سے کراچی جانا تھا۔اس
دوران دور اور نزدیک سیاحت کے لیے جاتے رہے ۔سب سے یادگار سفر ہنہ جھیل کی طرف تھا ۔کوئٹہ
سےلگ بھگ ۱۱ کلو میٹر دور بلند پہاڑیوں کے
درمیان گھری یہ ایک مصنوعی جھیل ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو ایسا لگا کہ
بھورے اور اونچے پہاڑوں کے درمیان کسی نےپانی سے لبا لب ایک پیالہ رکھ دیا
ہو ۔ جیسے
آپ کہیں منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں اور اچانک سامنے ہنہ جھیل کا خوبصورت منظر
آجائے تو فیض احمد فیض کےیہ خوبصورت اشعار
یاد آجاتے ہیں :
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئ
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
ماحولیاتی
تبدیلوں نے اس جھیل کے حسن کو بگاڑ دیا ہے ۔شدید خشک سالی اور گرمی میں یہاں کا
پانی سوکھ بھی جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ پانی
کا یہ بیش بہا خزانہ قائم رہے اور زائد پانی یہاں جمع ہوتا رہے۔ پانی کی گرتی ہوئی
سطح سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہاں آس پاس کے
باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس جھیل میں کشتی رانی کی تربیت دی جاتی ہے اور
یہاں کشتی رانی کے کئی مقابلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ جھیل درمیان میں سے بہت گہری ہے جس کے سبب یہاں کئی
حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ چند برس قبل جھیل میں چلنے والی کشتی میں ضرورت سے
زائد افراد بٹھانے کے سبب کشتی الٹ گئی اور پندرہ سے زائد افراد ڈوب کر ہلاک ہو
گئے۔ اب فوج کی نگرانی میں ضروری حفاظتی انتظامات کے ساتھ یہاں آنے والوں کو کشتی کی سیر کروائی جاتی
ہے۔ جھیل کے قریب نصب لفٹ چئیر کو ایک حادثے کے بعدہٹا دیا گیا تھا۔
اوڑک وادی
ہنہ
جھیل دراصل اوڑک وادی کاہی حصہ ہے۔اوڑک وادی کے چشموں کا پانی اس جھیل کی طرف لایا
جاتا ہے تاکہ پانی کاذخیرہ قائم رہے ۔اوڑک
وادی میں کئی باغات ہیں اور ایک پانی کا بند بھی ہے،جسے ولی تنگی ڈیم کہتے ہیں۔
گوادر
کراچی
جاتے وقت ہم گوادر بھی رکے۔ اس وقت یہ ساحلی علاقہ بس مچھیروں کی بستی نظر آتا
تھا۔اب سنا ہے کہ بہت ذیادہ ترقیاتی کام ہو چکے ہیں۔جب ہم وہاں پہنچے تو پورٹ
پر بڑے بڑے بحرے تجارتی جہاز لگے ہوئے
تھے۔ گوادر
بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی
گرم ہے جو دنیا کہ بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال
تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو
براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی .ایران اور دبئی پورٹ ورلڈ (متحدہ
عرب امارات) کے مفادات گوادر کی بندرگاہ کو مقابلے سے باہر رکھنے میں کوشاں ہیں کیونکے
آبنائے ہرمز پر یہ ممالک ایک گیٹ وے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔اسی لیے سیپیک معاہدے
کے بعد پاکستان میں سیاسی خلفشار کو بڑھاوا دیا جارہاہے۔ایک عالمی سازشی کھیل شروع
ہو چکا ہے جس کے تحت بعض طاقتیں پاکستان میں چین کی علمداری ختم کرنا چاہتی ہیں۔عرض
حال یہ ہی کہ ہر قوم نے اپنی قسمت خود سنوارنی ہوتی ہے ۱ور قومی رہنماؤں کو اتفاق
اور بردباری سے قومی ترقی کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ
بلوچستان کی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں ۔
بس
یہی پر ہمارا بلوچستان کا احوال تمام ہوا ۔کچھ اچھی یادیں تھیں ۔کچھ سچے محسوسات
ہیں۔کئی بار دل درد سے بھر آیا۔ سیب اور آڑو کے باغات کی خوشبو روح میں رچ بس گئی تھی
ہے۔کون کہ سکتا ہے کہ یہ بنجر مٹی اپنی کوکھ سے کتنے بیش بہا خزانے دے سکتی ہے ۔بلوچی لوگ سادہ لوح ل اور قدامت پسند ہیں۔ یہاں کی نئی نسل آگے بڑھنا چاہتی ہے اور دیگر دنیا سے قدم ملانا کے لیے بے چین ہے ۔ خدا کرے کہ ان کے وہ تمام
خواب پورے ہوں جو وہ ا پنی بہتری کے بارے میں دیکھتے ہیں ۔آمین۔